ماہنامہ کمپیوٹنگ کراچی کے اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارہ میں ’’اردو یونی کوڈ نستعلیق فونٹس میں ایک نیا اضافہ: مہر نستعلیق‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا گیا ہے۔ یہ مضمون اگرچہ مہر نستعلیق فونٹ کے تعارف پر مبنی ہے لیکن پھر بھی جناب ذیشان نصر نے اس مضمون میں فونٹس کے متعلق عمومی اور اردو فونٹس کے متعلق خصوصی معلومات مہیا کی ہیں۔ یہاں اس مضمون میں سے چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
یونی کوڈ معیار کیا ہے؟
کمپیوٹر کی بنیادی زبان انگلش ہے، میری معلومات کے مطابق تمام معروف پروگرامنگ لینگویجز، جو کہ کمپیوٹنگ کی بنیاد ہیں، انگلش زبان میں ہیں۔ کمپیوٹرز جیسے جیسے دنیا بھر میں مقبول ہوتے گئے اس بات کی ضرورت بڑھتی گئی کہ مختلف زبانوں کی سپورٹ کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹمز اور سافٹ ویئرز کی سطح پر مہیا کی جائے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی معیار (Standard) درکار تھا جس پر سب متفق ہو جائیں۔ چنانچہ یونی کوڈ (Unicode) وہ متفقہ معیار ہے جس کے جدید ورژن میں ایک سو اسکرپٹس کے تقریباً ایک لاکھ دس ہزار حروف کی سپورٹ موجود ہے۔ بہت سے اسکرپٹ دنیا میں ایسے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً عربی اسکرپٹ کی مدد سے عربی، اردو، فارسی، پنجابی، پشتو اور سندھی وغیرہ زبانیں لکھی جاتی ہیں۔ لاطینی اسکرپٹ کی مدد سے انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، جرمن، انڈونیشیائی، اور اطالوی وغیرہ زبانیں لکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح دیوناگری اسکرپٹ کی مدد سے ہندی، مراٹھی، نیپالی اور ڈوگری زبانیں وغیرہ لکھی جاتی ہیں۔
مہر نستعلیق فونٹ کی خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتے ہیں:
’’یونی کوڈ کی اصطلاح سے اکثر لوگ واقف نہیں ہیں۔ یونی کوڈ مختلف زبانوں کا ایک مشترکہ بین الاقوامی کوڈ ہے جو کہ فونٹس کے لیے اسٹینڈرڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہر وہ سافٹ ویئر جو یونی کوڈ کو سپورٹ کرتا ہے اس میں ہمارا یہ (مہر نستعلیق) فونٹ قابل استعمال ہوگا۔ جب کہ اس کے مقابل سمبل بیسڈ فونٹ (Symbol based font) صرف اپنے مخصوص سافٹ ویئر ہی میں قابل استعمال ہوتے ہیں۔ ویسے اب اکثر فونٹ یونی کوڈ بیسڈ ہی بن رہے ہیں۔‘‘
نسخ اور نستعلیق رسم الخط میں حروف کی مختلف شکلیں
نسخ اور نستعلیق رسم الخط میں زیادہ تر حروف کی شکل لفظ میں ان کے مقام کے اعتبار سے تبدیل ہوتی ہے، مثلاً درج ذیل الفاظ میں حرف ’’ہ‘‘ کی مختلف شکلیں دیکھیں:
ہاتھ، کہاوت، فاختہ، ماہ
اس خصوصیت کے متعلق مضمون نگار لکھتے ہیں:
’’نسخ اور کوفی دونوں خطوں میں ہر حرف تہجی کی چار شکلیں ہوتی ہیں: ابتدائی، درمیانی، آخری اور اکیلے۔ کچھ حروف جیسے ’’ر‘‘ کی کوئی ابتدائی یا درمیانی شکل نہیں۔ نستعلیق کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ اس میں حرف کی شکل حجم و مقام، اور اس کے آگے پیچھے موجود دیگر حروف پر منحصر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نستعلیق فونٹ بنانا مشکل کام ہے اور اس (کی فائل) کا حجم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یونی کوڈ فونٹ میں کسی حروف کی مختلف شکلیں متعین کرنے کی سہولت موجود ہے، لیکن نستعلیق خط کے لیے چونکہ حروف کی اشکال بہت زیادہ ہیں اس لیے یونی کوڈ فونٹ میں انہیں مرکب الفاظ کی شکل میں شامل کیا جاتا ہے۔‘‘
نستعلیق فونٹ کی تیاری، ایک مشکل کام
نستعلیق رسم الخط کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی مدد سے زیادہ الفاظ کم جگہ پر کھپائے جا سکتے ہیں۔ اگر نسخ خط پر مشتمل 800 صفحات کی کتاب نستعلیق خط پر مشتمل 500 صفحات میں پوری آجائے تو اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتابوں اور دستاویز کے حجم میں کتنا فرق آجاتا ہے۔ لیکن نستعلیق فونٹ بنانا بہت مشکل کام ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نستعلیق خط میں لکھی گئی عبارت کی بیس لائن سیدھی نہیں ہوتی، حروف اپنی پوزیشن کے اعتبار سے کبھی لائن کے اوپر، کبھی درمیان میں اور کبھی نیچے آتے ہیں۔ اس لیے کسی حرف کو آگے اور پیچھے والے حروف سے پروگرامنگ کے ذریعے ملانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے مقابلے میں نسخ خط پر مشتمل فونٹ کی تیاری آسان کام ہے، اس لیے کہ نسخ خط کی بیس لائن سیدھی رکھی جاتی ہے۔ کسی بھی حرف کو آگے اور پیچھے والے حروف سے ملانا مشکل نہیں ہوتا، صرف پروگرامنگ کے ذریعے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اگر حرف کسی لفظ کے شروع، درمیان، آخر، یا پھر اکیلا آئے تو اس کی کونسی شکل ظاہر ہونی چاہیے۔
درج ذیل مثال میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ نسخ خط میں ’’س‘‘ کی جگہ لائن کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ جبکہ نستعلیق خط میں ’’س‘‘ کی جگہ اس کے لفظ کے اعتبار سے کہیں لائن سے اوپر ہے اور کہیں نیچے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نسخ کے مقابلے میں نستعلیق فونٹ بنانا کیوں مشکل ہوتا ہے۔
نستعلیق فونٹ کیسے بنایا جاتا ہے، اس کی وضاحت میں مضمون نگار لکھتے ہیں:
’’اس وقت اردو کے لیے دستیاب نستعلیق فونٹس کی اکثریت دراصل Glyph بیسڈ فونٹس ہیں۔ یہ تقریباً وہی تکنیک ہے جس پر اردو کا مشہور زمانہ سافٹ ویئر ان پیج کام کرتا ہے۔ Character بیسڈ فونٹس میں کسی حرف کی کسی خاص پوزیشن پر شکل، رولز کے ذریعے ترتیب دی جاتی ہے۔ جبکہ Glyph بیسڈ فونٹ میں ہر مرکب لفظ (دو یا دو سے زیادہ حروف کا مجموعہ) کو الگ الگ بنایا جاتا ہے اور پھر ایک میپنگ ٹیبل کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر فلاں فلاں حروف ٹائپ کیے جائیں تو فلاں Glyph یا مرکب شکل ظاہر ہو جائے۔ اس طرح کے فونٹس میں Glyphs کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے فونٹ کا فائل سائز بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ اردو کے لیے دستیاب نستعلیق فونٹس کی اکثریت کا حجم 10MB سے بھی زیادہ ہے۔ کریکٹر بیسڈ فونٹس میں چونکہ Glyphs کی تعداد کم ہوتی ہے اس لیے ان کا سائز بھی کم (عام طور پر KBs میں) ہوتا ہے۔ Glyph بیسڈ فونٹس کو ویب سائیٹس پر استعمال کرنا بھی ایک مشکل امر ہے۔ انہیں ان کے زیادہ حجم کی وجہ سے embed کرنا دانشمندی نہیں۔‘‘
نستعلیق عبارت میں الفاظ کا آپس میں فاصلہ
نستعلیق عبارت میں ایک لفظ کا دوسرے لفظ کے ساتھ کتنا فاصلہ رکھا جائے، اس کا انحصار دونوں لفظوں کی شکلوں پر ہوتا ہے۔ درج ذیل مثال میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ’’کار آمد قلم‘‘ اور ’’کار آمد دوات‘‘ دونوں میں لفظوں کے درمیان فاصلہ ایک جیسا ہی ہے، لیکن ’’کار آمد قلم‘‘ میں یہ فاصلہ دیکھنے میں زیادہ لگ رہا ہے۔ Inpage سافٹ ویئر میں اس طرح کے الفاظ کے درمیان فاصلہ خودکار طریقے سے متعین ہو جاتا ہے۔
نستعلیق عبارت میں الفاظ کے درمیان فاصلہ کے مسئلہ پر مضمون نگار لکھتے ہیں:
’’کرننگ (Kerning) تمام فونٹس کا ایک مسئلہ ہے لیکن نستعلیق میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی ٹیڑھا ہے۔ کرننگ سے مراد دو حروف یا حروف کے مجموعے کے درمیان فاصلہ اور پوزیشن ہے۔ انگریزی فونٹس میں کرننگ کا عمل بہت سادہ اور آسان ہوتا ہے کیونکہ انگریزی حروف اپنی پوزیشن کے حساب سے شکلیں نہیں بدلتے۔ لیکن نستعلیق طرز تحریر کی خوبصورتی ہی اس کی حرف با حرف تبدیل ہوتی شکلیں ہیں۔ بدقسمتی سے نستعلیق فونٹس کی قلت کا ایک اہم سبب بھی یہی ہے۔‘‘
Modified: Fri, 01/09/2015 - 21:24