تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کیا ہے، موبائل جنریشنز کا ایک جائزہ

آئی ٹی نامہ بلاگ پر موبائل ٹیکنالوجیز کے حوالہ سے ایک مفید تحریر شائع کی گئی ہے جس کے تحت محمد زھیر چوہان نے مختصر لیکن جامع انداز میں تمام ضروری معلومات ذکر کر دی ہیں۔ عام طور پر ٹیکنالوجیز کے ورژنز کے لیے جو نمبر منتخب کیے جاتے ہیں ان سے عام صارفین یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ پرانی ٹیکنالوجی سے نئی ٹیکنالوجی کتنی بہتر ہے۔ اسی موبائل ٹیکنالوجی سے اندازہ کرلیں کہ 3G ٹیکنالوجی اگر 2,000kbps ڈیٹا ٹرانسفر کی صلاحیت رکھتی ہے تو 4G ٹیکنالوجی 100,000kbps ڈیٹا ٹرانسفر کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جبکہ صرف 3G اور 4G کے ورژن نمبروں سے اس فرق کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔

مجھے 4G ٹیکنالوجی میں دلچسپی کی بات یہ نظر آتی ہے کہ اب ہم کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کی پیچیدگیوں سے بچتے ہوئے، اور وائرلیس براڈ بینڈ استعمال کرتے ہوئے اپنے گھروں یا دفتروں میں ویب سائیٹ ہوسٹ کرنے کے قابل ہو سکیں گے، لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ انٹرنیٹ کی سروس بلا تعطل فراہم ہو۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی اچھے لیپ ٹاپ کو بطور Dedicated Server استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ لیپ ٹاپ کی بیٹری کا استعمال یو پی ایس اور جنریٹر کی پاور سپلائی کے درمیان پیدا ہونے والے ممکنہ وقفوں کے لیے ایک مؤثر حل ہے۔

پاکستان، یا یوں کہہ لیں کہ ترقی پذیر ممالک کا یہ المیہ ہے کہ رولز اینڈ ریگولیشنز کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے سروسز کی فراہمی عموماً غیر معیاری ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ سروس کی گنجائش سے زیادہ اس کے کنکشنز دے دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج سے کوئی پچیس سال پہلے ہمارے شہر گوجرانوالہ میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان جناح اسٹیڈیم میں ایک روزہ کرکٹ میچ تھا۔ میرے ایک دوست نے جنرل اسٹینڈ کی دو ٹکٹیں خریدیں اور ہم نے میچ دیکھنے کا پروگرام بنا لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جناح اسٹیڈیم میں پچیس ہزار کے قریب لوگوں کے لیے میچ دیکھنے کی گنجائش ہے۔ لیکن جب ہم اسٹیڈیم پہنچے تو وہ بھر چکا تھا اور شائقین کی ایک کثیر تعداد ابھی اسٹیڈیم سے باہر تھی، جبکہ اسٹیڈیم کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ لوگ اندر جانے پر مصر تھے لیکن پولیس گیٹ کھولنے کے لیے تیار نہیں تھی، اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس نے ڈنڈوں اور آنسو گیس کے ساتھ شائقین کی تواضع کی۔ چنانچہ ہمارے پاس وہاں سے بھاگنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ خوش قسمتی سے بچپن میں جناح اسٹیڈیم سے ملحق لیاقت باغ میں کھیلنے کی وجہ سے میں علاقہ سے واقف تھا اس لیے فرار ہونے میں بہت زیادہ دقت پیش نہیں آئی، البتہ میرے دوست نے میری تنبیہ کے باوجود آنسو گیس میں سے گزرتے ہوئے سانس لے لیا جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ تپش اور جلن کا شکار ہوا۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ میچ کے لیے اسٹیڈیم کی گنجائش سے کہیں زیادہ ٹکٹیں فروخت کر دی گئی تھیں۔

آئی ٹی نامہ کی اس تحریر میں سے ایک تصویر یہاں پیش کی جا رہی ہے جبکہ مکمل تحریر کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔

تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کیا ہے، موبائل جنریشنز کا ایک جائزہ۔


تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کیا ہے، موبائل جنریشنز کا ایک جائزہ